ایسا کون؟
سید یاور عباس زیدی، حوزہ علمیہ قم ایران، ۵ فروری 2014
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللھم صل علی محمد وآل محمد وعجل فرجھم و العن اعدائہم
میں کھانا کھا رہا تھا کہ میرے دوست کا تہران سے فون آیا اُس نے مجھ سے کہا کہ تمہارے لیے ایک بری خبر ہے میرا جو لقمہ ہاتھ میں تھا وہ ہاتھ میں ہی رہ گیا اور اِس سے پہلے کہ وہ مجھے خبر دیتا میں نے یہ پیغام خود سمجھ لیا کہ میرے استاد شہید کر دیئے گئے۔ سنا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اُن کے سر میں، سینے میں کئی گولیاں لگیں۔ لوگوں نے اُن کو ہمیشہ اللہ کی عبادت ، مولا مہدی کی اطاعت اور لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے دیکھا اور سنا نجانے کتنے موقعوں پر کس کس نے اُن سے کیا کیا سیکھا اور وہ شخص لوگوں میں لوگوں کی خدمت کرنے کے لیے اِس قدر مشغول رہا کرتا تھا کہ گھر والے اُن کی زیارت سے اکثر محروم رہا کرتے تھے اِس کے باوجود بچوں کی تربیت اور اپنے اہل خانہ کے حقوق میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ چند سالوں پر مشتمل زندگی جس کے سب ہی شاہد ہیں چاہے امام بارگاہ ہو چاہے مسجد ہو، یا کوئی خانقاہ ہر ایک اُن کے مسکراتے ہوئے چہرے کی یاد کو دل میں بسائے ہوئے ہے۔
ہمیشہ ہر ایک اِس انتظار میں رہا کرتا تھا نجانے کب اور کیسے سبط جعفر سے ملاقات ہوجائے ۔ لگتا ہے جیسے مولا کے قول کی عملی تفسیر ہمارے اُستاد اپنی زندگی میں کر گئے :
"لوگوں میں اِس طرح زندگی بسر کرو وہ تمہاری ملاقات کے مشاق رہیں "
اُس شخص کی سادگی کا کیا کہنا ، دنیا حیران ہے کہ اتنا بڑا آدمی کس طرح کی زندگی گزار کر اِس جہاں سے چلا گیا ۔ ایک دفعہ ہمارے ایک دوست کے نکاح میں خود جا رہے تھے، میں غازی چوک پر کھڑا تھا اچانک اُن سے ملاقات ہوئی کہنے لگے منظر کے نکاح میں چلو ،میں نے کہا کہ اُس نے مجھے ولیمے میں بلایا ہے۔ کہنے لگے دوستوں میں بلانا نہ بلانا کیسا؟ میں نے کہا : آپ کہتے ہیں تو چلیئے۔ تو فرمانے لگے: بیٹھئے پیچھے۔ میں نے کہا: اتنی مہلت تو دیجئے کہ میں چپل بدل کر جوتے تو پہن لوں۔ کہنے لگے: انسان کی شخصیت اُس کا لباس نہیں اُس کا کردار ہے۔
قم المقدس میں ایک دفعہ ہوٹل سے نکلے، ہم اور وہ ساتھ تھے، اچانک اذان کی آواز کان میں پڑی، اذان سن کر رو دیئے پھر مجھ سے کہنے لگے آپ کو معلوم ہے اذان کا کیا مطلب ہے؟ میں نے کہا: نہیں، آپ بہتر جانتے ہیں، آپ بتائیے! کہنے لگے: مسلک کی تفریق کے ساتھ کبھی تین دفعہ اور کبھی پانچ دفعہ خدا خود صدا دیتے ہے کہ اے میرے بندے! اگر تجھے کوئی کام ہے تو میں تیرے کام کو حل کرنے کے لیے ہوں، میری طرف آ!
ایام فاطمیہ میں جس چیز کی بنیاد استاد نے ڈالی ، میں سمجھتا ہوں اُن کے عظیم کاموں میں سے ایک بہترین مثال ہے جس طرح علماء اور ماتمی حضرات کے درمیان ایک محکم پل کو قائم کر گئے ہیں خدا اُس کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔ اور یہاں قم میں بھی اپنے خاص انداز میں بڑی بڑی باتیں کر گئے ۔ مثلاً ماتمیوں کے لیے فرماتے ہیں: اِن کے بارے میں غلط فہمی مشہور ہے کہ یہ نماز نہیں پڑھتے جبکہ ایسا نہیں ہے بعض ماتمی حضرات کو تو نماز شب پڑھتے ہوئے بھی پکڑا گیا ہے۔
مجھے قم میں خدا نے بے حساب نعمتوں سے نوازا ہے اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اُستاد نے قم میں میرے غریب خانہ میں قیام فرمایا ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ استاد کے شاگردوں میں سے بہت کم لوگوں کو یہ سعادت نصیب ہوئی ہوگی۔
قم میں موجود جاننے والا ہو کہ نہ جاننے والا … جس نے بھی اُن کی شہادت کی خبر سنی یا اُن کے سلسلے میں برپا ہونے والی مجالس میں شرکت کی اُس نے اُن پر گریہ کیا… نہ جاننے والے نے صرف مجھ سے اتنا پوچھا: سبط جعفر وہی نہ "جب امام آئیں گے" خدا انسان کو ایسا تعارف عطا کرے تو زندگی کا مزا ہے ۔ جس طرح لوگوں نے اُن کو زندگی کے مختلف مرحلوں میں دیکھا اور جس طرح لوگ دیکھنے کا شوق رکھتے تھے اور جو کچھ اُن سے سنتے تھے اُس کو ہمیشہ پورا ہوتے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ
تو جو ہے یا لیتنی کا دعویدار جب پکاریں امام زماں تجھ کو
وقت مشکل فرار مت کیجئے سر کو گردن پہ بار مت کیجئو
اس شعر کی تشریح و تفسیر اُس وقت ہوئی جب دشمن نے اُن پر حملہ کیا اور دشمن یہ سمجھا کہ وہ اپنی مراد پا گیا جس طرح عصر عاشور شمر ملعون جو سوچ رہا تھا وہی اُس کے پیروکار آج بھی سوچ رہے ہیں اور جو حسین علیہ السلام زیر خنجر پیغام دے گئے ہیں عاشقان حسین اُس پر لبیک یا حسین ، لبیک یا حسین کہے جا رہے ہیں۔
مگر ایک خواہش ہے جو میرے دل میں اُس وقت سے مچل رہی ہے جب سے میں نے اُستاد کی شہادت کی خبر سنی۔ لوگوں نے اُن کی شہادت کے بعد اُن کی "عجل ملبوس کو مت کفن نام دو ۔۔۔" خواہش کو کما حقہ پورا ہوتے دیکھا وہ واقعاً ایسے ہی چلے جیسے کوئی بادشاہ سے ملاقات کے لیے جاتا ہے۔ جس سے ملنے جاتا ہے اُس کے لیے سوغات بھی ساتھ لے جاتا ہے اور پھر اُستاد کے ہمراہ عبادت، اطاعت، خدمت، محبت، مدحت اور شہادت جیسی سوغات بادشاہ کون و مکاں یعنی امام زماں (عج) کی بارگاہ میں اُستاد کو سرخرو اور آبرومند کرنے کے لیے کافی ہیں۔
میری خواہش یہ تھی ، ہے اور نجانے کب پوری ہوگی کہ اے کاش جب وہ زمین پر گرے یہ منظر دیکھنا اپنی جگہ … مگر اِس کے بعد کا منظر یعنی کیا ہوا؟ کس نے آکے استقبال کیا … کس کے زانو پر استاد کا سر تھا؟ کون استاد کو لینے آیا، کس کی خدمت میں استاد کو لے جایا گیا؟ یہ تو وہی جانتا ہے جس کی چشم حقیقت وا ہواور یوں تو حضرت حجت کے ظہور کی بے چینی کے کب نجانے آپ آجائیں اور کیوں نہیں آتے جیسے درد ہر منتظر کے دل میں ہیں مگر حضرت کے ظہور کے بعد جہاں حضرت حجت کا دیدار یقینی ہے وہاں مولا کے ظہور کے وقت ہمیں ہمارے استاد کی بھی زیارت نصیب ہوگی۔ انشاء اللہ ۔ والسلام علی الشہداء
"إنّ الأمّة التی لا تعرف کیف تصرف کلّ طاقاتها، فی وجودها، لا یمکن لها أن تستمرّ فی الوجود"
الإمام القائد السید موسى الصدر